تحریر سلیمان اشفاق چوہدری
پاکستان کی علاقائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے بھارتی مقبوضہ افواج کے سامنے ستر سال سے سینہ سپر ”وادی سماہنی“ ایک تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔
ماضی قریب پہ طائرانہ نظر میں ہمیں یہ وادی جہلم شہر اور جموں شہر کے درمیان گزرگاہ کی حامل رہی ہے۔جنڈی چونترہ تحصیل سماہنی کا مقام اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے یہاں سے مقبوضہ کشمیر ”سرینگر“ کی درگاہ حضرت بل اور ”لاہور“ کی بادشاہی مسجد یکساں فاصلہ پہ شمالاً اور جنوباً مخالف سمت میں موجود ہیں۔
قدرتی حسن سے مالا مال، جنگلات، بل کھاتی شاہراہوں اور پانی کے میٹھے چشموں کی مسکن وادی سماہنی کو خدا تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا تو اس زرخیز دھرتی نے بےشمار نامور شخصیات کوبھی جنم دیا ہے۔ریاست بھر کی بیوروکریسی ہو یا پاکستان کے اعلیٰ عسکری عہدیدار،ہر شعبہ میں اس جنت نظیر وادی سے تعلق رکھنے والے سپوتوں نے اپنا نام ہمیشہ نامور شخصیات کی صف میں واضح اور جلی حروف میں درج کرایا ہے۔لائن آف کنٹرول وادی سماہنی عرصہ دراز سے استحصالی کا شکار رہی۔ اس کے میٹھے چشموں اور نالوں کا پانی دریائے جہلم و چناب میں بہہ کر پنجاب کو تو سیراب کرتا ہے لیکن اس کےمکین آج بھی پانی کی بوند بوند کو ترستے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس وادی کے گھنے جنگلات کے درخت سے حاصل ہونے والی قیمتی لکڑ پاکستان بھر میں مختلف صنعتوں میں استعمال ہوتی نظر آتی ہے لیکن وادی کے باسیوں کے سر پہ چھت بننے سے قاصررہی ہے۔
80ء کی دہائی پہ نظر دوڑائیں تو وادی سماہنی میں لوگ بھی آباد رہے، ووٹ بھی موجود تھے اسمبلی بھی تھی اور نظام ریاست بھی قائم دائم تھا۔ لیکن پھر بھی اس وادی سے الیکشن میں منتخب ہونے کے لیے بھمبر سے چوہدری صحبت علی مرحوم تھے یا ان کے حمایت یافتہ سابق صدر ریاست راجہ ذوالقرنین جو امیدوار اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔
1985 میں پاکستان جنرل ضیاء الحق کے صدارتی دور میں ریاست میں بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ جس کے نتیجے میں وادی سماہنی کے علاقہ پونا کے نواحی گاؤں ”ہوڑاں“ سے سیاسی قد کاٹھ کی حامل شخصیت چوہدری محمد رشید کا واضح کردار تیزی سے ابھر کر سامنے آیا۔انہوں نے خداد صلاحیتوں کی بدولت طبقاتی تقسیم کے نظام میں ِپِسی ہوئی مخلوق خدا کے لیے علمی ،عملی و انقلابی اقدامات کیے جن کی بدولت سماہنی کی عوام میں ان کی مقبولت کا گراف آسمان کی بلندی کو چھونے لگا۔آپ اپنی شخصیت میں اپنی مثال آپ تھے۔نفاست اور نزاکت آپ کا خاصا تھی۔اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار کارکنوں کا حوصلہ اور پیکر وفا بن کے رہے۔
چوہدری محمد رشید نے پارلیمانی سیاست کا آغاز 1990ءکے منعقدہ الیکشن سے کیا الیکشن میں کامیابی سمیٹی اور راجہ ممتازحسین راٹھور کی کابینہ میں وزیر خورا ک و اوقاف کا قلمدان سنبھالا۔ ان وزارتوں میں اصلاحات لاکر ان وزارتوں کی آمدن میں اضافے کا باعث بنے۔بدقسمتی سے یہ حکومت ایک سال بھی مکمل نہ کر سکی اور بالآخر 1991ءمیں دوبارہ الیکشن کا انعقاد کرانا پڑ گیا۔پاکستان میں پیپلز پارٹی کی دوبارہ حکومت قائم ہوئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئی اور چوہدری محمد رشید نےوزیراعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو کے مشیر کے طور پر بھی کام کیا۔
1996ءکے الیکشن میں ایک بار پھر کامیاب ہوئے اور وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی کابینہ میں تعلیم، خوراک،اور قانون کی وزارت کا قلمدان سنبھالا اور عوامی خدمت کا سفر بڑی تیزی سے شروع کیا اور میگا پراجیکٹ وادی سماہنی میں لائے۔سڑکوں کا جال بچھایا، سکولز اور کالجز کی اپ گریڈیشن کروائیں۔اہل وادی سماہنی کی عزت نفس کی بحالی میں کردار ادا کیا۔ملازمتوں کے بےشمار مواقع پیدا کیے اور سینکڑوں افراد کو سرکاری نوکری دلوانے میں کردار ادا کیا۔برادری ازم کا خاتمہ کیا۔امن و امان کے حالات کو مثالی طور بہتر بنایا۔اداروں سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ کیا۔2001ء کے الیکشن میں کامیابی سمیٹی لیکن حکومت کے بجائے اپوزیشن حصہ میں آئی۔ بطور اپوزیشن رکن اسمبلی فعال کرادر ادا کیا۔2006ءکے الیکشن میں ”جن پتوں پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“ کے مصداق آپ کے دست راست علی شان سونی نے بغاوت کا علم بلند کیا۔اپنوں کی مہربانی غیروں کی سازشیں کارگر ثابت ہوئی اور آپ یہ الیکشن ہار گئے۔تاہم عوامی خدمت کا سفر جاری و ساری رکھا-مگر سانسوں نے وفا نہ کی اور آپ 15مارچ 2010ء کو حرکت قلب بند ہونے کے سبب وفات پا گئے لیکن اپنے کردار کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں آباد ہیں آج ان کی برسی کے موقع پہ دلی طور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین
چوہدری رزاق امیدوار اسمبلی آپ کے سیاسی جانشین ہیں اور آپ کے بیٹے پرویز رشید برطانیہ میں مقیم ہیں لیکن ان کا دل آج بھی اپنی وادی کے دلوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔وہ ہر سال برسی پہ اہتمام کیساتھ شرکت کرتے ہیں۔
