ایک شخص کی والدہ محترمہ وفات پا گئی تو گاؤں کے ٹھاکر اس کو دلاسہ دیتے ہوئے بولے کہ
یہ صرف تمہاری “ماں” نہیں تھی۔
بلکہ یہ میری بھی “ماں” ہی تھی۔
یہ اس پپو کی بھی “ماں” تھی
بلکہ مجمع میں بیٹھے ہر شخص کی “ماں” تھی۔
مجمع تو کیا یہ پورے گاؤں کے ہر شخص کی “ماں” تھی

اتنی اپنائیت سے مزین الفاظ پہ مشتمل گفتگو سن کر اس کا غم ہلکا ہوا۔ صبر ملا،حوصلہ ملا،تسلی ملی۔
اللہ اللہ کرتے وہ اماں کے سوئم چہلم سے فارغ ہوا اور چالیس دن ان الفاظ کی گردان اپنے دکھ میں شریک ہونے والے ہر بندے سے کرنے لگا۔ کہ ٹھاکر صاحب نے میری والدہ کی میت کے پاس بیٹھ کر مجھے کہا تھا کہ
یہ صرف تمہاری “ماں” نہیں تھی
بلکہ یہ میری بھی “ماں” ہی تھی
یہ اس پپو کہ بھی “ماں” تھی
بلکہ مجمع میں بیٹھے ہر شخص کی “ماں” تھی
مجمع تو کیا یہ پورے گاؤں کے ہر شخص کی “ماں” تھی۔

وقت گزرا، کہ گاؤں کے ٹھاکر صاحب کی بیوی وفات پاگئی۔
اب اس نے ٹھاکر صاحب کو ان کے ادا کیے گئے الفاظ کو اپنی زبان سے ادا کر کے تسلی دینے کی ٹھان لی اور ٹاکر صاحب کی بیوی کی میت کے پاس بیٹھ کر کہا کہ ٹھاکر صاحب
یہ صرف آپ کی “بیوی” نہیں تھی
بلکہ یہ میری بھی “بیوی” ہی تھی
یہ اس پپو کی بھی “بیوی” تھی
بلکہ مجمع میں بیٹھے ہر شخص کی”بیوی” تھی
مجمع نہیں بلکہ یہ پورے گاؤں کے ہر شخص کی”بیوی” تھی۔
ٹھاکر صاحب نے اس بات پہ اس کو ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگائی اور چالیس دن حویلی داخلے پہ غیر اعلانیہ پابندی لگا دی۔
ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جب کوئی پروفیشنل صحافی سوشل میڈیا پہ ایک خبر دیتا ہے تو ہر ایک ڈیجیٹل صحافی اس خبر کو پیسٹ کرکے اپنی آئی ڈی اور اپنے مختلف پیجز سے بلا تحقیق شئیر کر دیتے ہیں۔ بعد میں خبر لگتی ہے کہ یہ معاملہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔
سچ جب تک پاؤں میں جوتی پہنتا ہے جھوٹ اس وقت تک پورے شہر کا ننگے پاؤں طواف کر چکا ہوتا ہے۔
صحافت علم و ادب سے شغف رکھنے والے احباب کا ثانوی شوق اور ذریعے معاش ہوتا تھا۔
اس کے ذریعے وہ اپنی تحقیق بذریعہ تحریر لوگوں تک پہنچانے کو اپنا پیٹ پالنے جیسے فرض سمجھتے تھے۔
حالات و واقعات پہ ان کی گرفت بھی قابل داد اور قابل رشک ہوتی۔ماضی کے علوم کی مستقبل میں منتقلی اور مستقبل کی پیش بندیاں ان کے ویژن علم تحقیق و تجربات کے مرہون منت ہوتی۔
لیکن وقت کی برق رفتاری میں شعبہ صحافت سے وہ لوگ بھی وابستہ ہو گئے کہ اللہ کی امان۔
قلم کی جگہ فون نے لے لی۔ قلم جو الم بیان کرتے تھے ان کی جگہ پہ فون اب فلم بیان کرتا ہے۔
شادی بیاہ فوتگی ختم شریف کی ڈیجیٹل کوریج کرنے والے صحافت کے مقدس پیشہ میں اس طرح داخل ہو چکے کہ اللہ کی امان۔
اب ساری بھیڑوں میں سفید وہی ہے جو سرکار کی منظور نظر ہے۔
علمی تحقیق و تحریر ہی قوموں کو مشکلات سے نکلنے کے ذریعے فراہم کرتی ہے۔لیکن نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ کاپی پیسٹ صحافت مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے اضافہ کرنے کا باعث بن چکی ہے۔ تخلیق کی جگہ خوشامد اور تخریب نے لے لی ہے۔

نوٹ:- اس موضوع پہ سیر حاصل بحث کی گنجائش موجود ہے۔اور راقم کی تحریر سے سب کا متفق ہونا ضروری بھی نہیں ہے۔

By admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *