تحریر :سید شبیر احمد
میں ایک ڈرپوک سا سیدھا سادہ قانون پر چلنے والا شخص ہوں اس لئے کبھی تھانہ کورٹ کچہری کا واسطہ نہیں پڑا تھا البتہ کچھ سینئر وکلا ء سے سلام دعا ضرور تھی۔کبھی کبھار ان سے ملنے اور سلام دعا کے لئے کچہری ان کے پاس حاضر ہو جاتا تھا۔2004 ء میں اپنے بینک کی طرف سے بینک کے عدالتی معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ملی لیکن پھر بھی میرے جونیئر ہی زیادہ تر وہ کام دیکھ لیتے تھے۔ان دنوں جناب محمدشریف طارق اور محمد ایوب صابر ہمارے بینک کے وکلا ء تھے۔۔ بینک کی طرف سے ایک اہم کیس کی پیروی کے لئے مجھے وکیل صاحب کو لے کرکیس کی سماعت کیے لئے بھمبرعدالت میں جانا تھا۔ میں صبح صبح تیار ہو کر گاڑی لے کر ان کے گھر پہنچا تو وکیل صاحب جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے اصرار کر کے مجھے گھر کے اندر بلایا اور ناشتہ کرانے پر اصرار کیا۔میرے منع کرنے پر وہ بولے شاہ جی، آپ پہلی دفعہ میرے گھر آئے ہیں۔ میں کیسے آپ کی خدمت کیے بغیر آپ کو جانے دوں۔ بصد اصرار ناشتہ کروایا اور اس کے بعد ہم بھمبر کے لیے روانہ ہوئے۔یہ میری ایوب صابر صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔
بھمبر کے سفر کے دوران باتوں باتوں میں ان سے اور شناسائی نکل آئی کہ وہ برطانیہ میں مقیم میرے تایا زاد بھائی میجر عبدالرحمن شاہ کے دوست تھے اور انہیں بہت عرصہ سے جانتے تھے۔ اس حوالہ سے ان سے بہت سی باتیں ہوئیں۔وہ پورادن ہم نے بھمبر میں اکٹھے گزارہ۔انہوں نے عدالت میں بحث کی اور اسی دن اس کیس کا فیصلہ ہمارے حق میں کروا دیا۔اس ملاقات کے بعد ان سے دوستی اور احترام کا ایک تعلق قائم ہو گیا
۔بینک کے عدالتی معاملات کی وجہ سے اکثر ان کے پاس کچہری میں وکلاء چیمبر میں واقع ان کے دفتر اور کئی دفعہ ان کے گھر میں آنا جاناشروع ہو گیا۔ عمر میں مجھ سے بڑے ہونے کے باوجود وہ مجھ سے بہت عزت سے پیش آتے اورمیرا بہت احترام کرتے تھے جس سے کئی دفعہ میں اپنے آپ شرمندگی محسوس کرتا تھا۔ بینک کے اکثر کیسوں کی وہ پیروی کرتے تھے لیکن اس کے لئے کبھی ہمیں انہوں نے اپنے دفتر کے چکر نہیں لگوائے۔ کتنی دفعہ اہم کیسوں کی پیشیوں پر میں خود عدالت چلا جاتا تو وہ مجھے اپنے دفتر میں بٹھا دیتے اور اپنے جونیئر وکیل یامنشی کو عدالت میں بھیجتے اور پکارا ہونے پر خود عدالت میں پیش ہوتے۔ ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض وکلا ء مدعی حضرات کو گھنٹوں عدالتوں میں کھڑا رکھتے ہیں۔ فیس کے لئے کبھی انہوں نے ہمیں تنگ نہیں کیا اور نہ ہی بینک کی طرف سے مقرر کردہ فیس میں اضافے پر بحث کی۔ اپنے دفتر سے کبھی بھی قہوہ پئے بغیر نہیں جانے دیا اور گھر میں تو وہ پوری خاطر داری کرتے تھے۔ میں بھی انہیں اپنا بزرگ دوست سمجھتا تھا۔
ایک دفعہ میرے اپنے ایک عزیزرشتہ دار سے کسی خانگی مسئلہ پر جھگڑا ہوا تو میں ان کے پاس گیا اور ان رشتہ دار کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی درخواست کی۔انہوں نے مجھے شام کو گھر آنے کو کہا۔ مجھے تھوڑی مایوسی ہوئی کہ انہوں نے شاید مجھے ٹال دیا ہے حالانکہ میں نے بھی فیس دینی تھی۔ شام کو میں ان کے گھر گیا تو انہوں نے مجھے بڑے پیار اور سنجیدگی سے سمجھایاکہ یہ مقدمہ بازی اچھی چیز نہیں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس میں نہ پڑیں۔ آپ میرے دوست ہیں محترم ہیں اور ایک شریف انسان ہیں اس لئے ہم اس کا کوئی حل نکال لیتے ہیں۔انہوں نے اس کا ایک حل بھی تجویز کیا۔ ان کے اس مخلصانہ مشورے نے مجھے عدالتوں کے جھنجٹ میں پڑنے سے بچا لیاجس کے لئے میں آج بھی ان کا ممنون ہوں۔
2006 ء میں میں حج کے لئے سعودی عرب گیا۔ ایک دن ظہر کی نماز پڑھ کر حرم شریف کے باب عمرہ سے میں باہر نکلا تو ایوب صابر صاحب کو سامنے کھڑا پایا۔ وہ اپنے کسی ساتھی کاحرم شریف سے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ہم دونوں کو ہی ایک دوسرے کو حرم شریف میں دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی جس کا اظہار ممکن نہیں۔ انہوں نے اسی شام کو مدینہ شریف روانہ ہونا تھا اس لئے اور وہاں ان سے مزیدملاقات تونہ ہو سکی البتہ اس دن دوپہر کا کھانا انہوں نے اصرار کر کے اپنے ساتھ کھلایا۔ اس ملاقات کو وہ اکثر یاد کرتے تھے۔
ان دنوں بینک کے کام کے علاوہ بھی میں ان سے ملنے اکثر ان کے دفتر چلا آتا جہاں ان سے علمی،ادبی اور مذہبی موضوعات پر بڑی اچھی گفتگو ہوتی۔میرے مطالعہ کو دیکھ کر وہ اکثر مجھے وہ ان موضوعات پر لکھنے کو کہتے اور اپنے بھائی یعقوب نظامی کی مثال دیتے جو بہت اچھے لکھاری اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ان کی ذاتی زندگی پر کبھی ان سے زیادہ بات نہیں ہوئی۔ وہ اپنے بیٹے الیاس ایوب کے لئے بہت فکرمند ہوتے تھے لیکن بیٹے کی ہمت اور انتھک محنت سے انہیں بڑا حوصلہ بھی ملتا تھا۔ ان کو جوڑوں کے درد کی شکایت شروع ہوئی جس وجہ سے کچھ عرصہ کے لئے ان کا کچہری آنا موقوف ہوا لیکن درد میں آفاقہ ہونے پر وہ پھر دفتر حاضر ہو جاتے۔بیماری کے زور پکڑنے پر انہوں نے کچہری آنا کافی عرصہ سے چھوڑا ہوا تھا۔ ایک دو دفعہ ان کا پتہ کرنے ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔وہ اپنی بیماری کی وجہ سے دفتر نہ آ سکنے پر فکرمند ہوتے تھے۔ پچھلے ایک سال سے کرونہ وائرس اور پھربیٹے کے علاج کے لئے میرے برطانیہ آجانے کی وجہ سے ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ آج ان کی رحلت کی خبر دیار غیر میں سن کر اور بھی دکھ ہوا کہ ان کے جنازے کو کندھا نہ دے سکا۔ ان کا شمار ایک محنتی، شریف النفس سینئر وکلا ء میں ہوتا تھا۔ ان جیسی شخصیات کی رحلت کی وجہ سے دنیا اچھے لوگوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

