سید شبیر احمد
اسلام آباد ائیرپورٹ کے انٹرنیشنل ڈیپارچر لاؤنج میں وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھے تھے۔بزرگوار کی عمر ستر برس سے زیادہ ہی ہو گی،ان کی آنکھیں بند تھیں،بند آنکھوں سے آنسو قطرہ قطرہ بہہ کر ان کی سفید ریش کو بھگو رہے تھے۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کے منہ سے بے اختیار سسکی نکل جاتی تھی۔ ہم میاں بیوی اپنے نواسے کے ہمراہ لاؤنج میں بیٹھے قطر ائیر ویز کی دوہا جانے والی فلائٹ کی روانگی کا انتظار کر رہے تھے۔ بزرگوار کے ساتھ ایک سمارٹ سانوجوان بیٹھا تھا جو ٹھیٹھ پہاڑی زبان میں کبھی انھیں تسلی دیتا اورکبھی غصہ ہو کے کہتا۔ بابا جی! تساں کہہ کرنے او، سارے لوک تساں کی پئی تکنیں نیں۔(آپ کیا کر رہے ہیں سارے لوگ آپ کو دیکھ رہے ہیں)۔میں بڑی دلچسپی سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے نوجوان کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔ “بیٹا کیا بات ہے۔؟ “کچھ نہیں ،انکل ! دادا ابو ایسے ہی جذباتی ہو رہے ہیں۔ اس نے جواب دیا۔میں نے بڑے پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ” بیٹا! کوئی بات نہیں، آپ انھیں دلاسا دو،وہ ٹھیک ہو جائیں گے”۔ اتنے میں قطر ائیرویز کے مسافروں کے لیے جہاز پر روانگی کا اعلان ہوا توہم میاں بیوی بھی اپنے نواسے کے ساتھ جہاز پر سوار ہونے والوں کی قطار میں کھڑے ہو گئے۔
دوہا پہنچ کر دوبارہ چیکنگ کے مراحل سے گزر کر ہم مانچسٹر جانے والی فلائٹ کے لاؤنج میں پہنچے۔یہاں اگلی فلائٹ کے لیے ہمیں چار گھنٹے انتظار کرنا تھا۔اسی اثنا میں وہ بزرگوار بھی نوجوان کے ہمراہ اسی لاؤنج میں آ پہنچے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بھی مانچسٹر ہی جا رہے ہیں۔لاؤنج میں وہ ہم سے کچھ دور بیٹھ گئے۔مانچسٹر کی فلائٹ میں ابھی تین گھنٹے باقی تھے۔تھوڑی دیر بعدمیں اپنا تجسس مٹانے کے لیے ان کے پاس جا بیٹھا اور سلام دعا کے بعد اپناتعارف کرایا۔میری بینک کی ملازمت کے چھ بہترین سال ڈڈیال میں گزرے ہیں، اس لیے ڈڈیال سے مجھے بڑا اُنس ہے۔اپنی تعیناتی کے دوران علاقہ اندرہل کی برانچوں دیکھنے کی وجہ سے میں اس علاقہ کے چپے چپے سے میں واقف ہوں۔ وہ ڈڈیال کے رہنے والے تھے اور عرصہ درازسے ترکِ وطن کر کے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں رہ رہے تھے۔ میں نے باتوں باتوں میں اُن سے اسلام آباد ائیرپورٹ پرجذباتی ہونے کی وجہ جاننی چاہی تو انھوں نے چونک کر پوچھا۔ آپ کو کیسے پتہ چلا؟ میں نے انھیں بتایا کہ میں ان سے تھوڑی دور ہی بیٹھا تھا۔ دیہات میں رہنے والے لوگ بڑے سادہ طبیعت اور کھلے دل کے مالک ہوتے ہیں یہ میں نے دیہات کی برانچوں میں تعیناتی کے دوران بے قریب سے دیکھا ہے۔ خود میں نے بھی اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دیہات میں گزارہ ہے۔وہ بزرگوار بھی فورا ہی مجھ سے گھل مل گئے اور باتیں کرنے لگے،اتنے میں اُن کا پوتا چائے کے دو مگ لے کر آ گیااورایک مگ مجھے دیا اور دوسرا اپنے دادا ابا کو پکڑا دیا۔
جب باتیں شروع ہوئیں تو پھرکھل کر ہوئیں۔ انھوں نے بتایا کہ منگلا ڈیم بننے کی وجہ سے وہ دفعہ اُجڑے ہیں۔پہلی دفعہ1962 ء میں جب منگلا ڈیم بنا تو ان کا گاؤں اور بہت ساری زمینیں منگلا جھیل میں غرق ِآب ہو گئیں۔ دوسری دفعہ 2007 ء میں ڈیم کو دوبارہ اونچا کرنے کی وجہ سے ان کی بچ جانے والی اور نئی خرید کردہ زمینیں جھیل کے پانیوں کی نذر ہو گئیں۔ وہ کہنے لگے کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان منگلا ڈیم کے کنارے بسنے والے تارکینِ وطن کو ہوا ہے۔ان کے گھر، زمینیں اور آباؤاجداد کی قبریں پانی میں ڈوب گئی ہیں جو ان کااپنے ملک سے ایک مضبوط تعلق اور رشتہ تھا۔وہ اب ختم ہو گیاہے، اس بات پر وہ کافی افسردہ تھے۔
باتوں باتوں میں اُنھوں نے بتایا اُن کا تعلق ڈڈیال میں واقع منگلا ڈیم کے کنارے آباد ایک گاؤں سے ہے۔ اُن کا تعلق ایک ہنرمند برادری سے ہے۔ ان کے والد تعمیر کا کام کرتے تھے جس میں وہ انتہائی مہارت رکھتے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ ان کے تینوں بیٹے تعلیم حاصل کریں اور پڑھ لکھ بڑے افسر بنیں۔اِس لیے اُنھوں نے ہم تینوں بھائیوں کوسکول میں داخل کرایا۔وہ خود بڑی محنت کر کے اپنے بیٹوں کو آسانیاں فراہم کرتے تھے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُنھوں نے 62 ء میں ایف اے کیا تو اُن کا سکول میں بطور جونیئر مدرس تقرر ہو گیا۔ ان ہی دنوں منگلا ڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہوا تھا۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ کے بعد برطانیہ کو جنگ سے ہونے والی تبا ہ کاریوں کی تعمیرنو کے لیے سستے مزدوروں اور ہنرمندوں کی ضرورت تھی۔ پچاس کی دَہائی میں ڈڈیال اور میرپور سے ہزاروں لوگ برطانیہ جا چکے تھے۔ میرپور اور اس کے گردو نواح سے ڈیم کی تعمیر شروع ہونے کے بعد آبادی کے انخلا کی وجہ سے ایک غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ اس لیے بہتر مستقبل کے لیے ان کے والد نے اُن کا برطانیہ جانے کے لیے بندوبست کیا اور وہ 1963 ء میں وہ برطانیہ آگئے۔سخت سرد موسم، برمنگھم میں فونڈری کے بھاری کام، رہائش کی ناکافی سہولیات اور زبان سے ناواقفیت جیسے مسائل کے باوجود اُنھوں نے بڑی محنت سے کام کیا اور چار سال بعد کچھ رقم پس انداز کر کے1967 ء میں وطن واپس آئے۔ تب تک منگلا ڈیم میں پانی بھرنا شروع ہو چکا تھا۔ اُن کا گاؤں اور اُن کی کچھ ز مینیں منگلا ڈیم کے پانی میں ڈوب چکی تھیں۔ہر طرف افرا تفری کا سماں تھا۔ گاؤں کے گھر کی جگہ کے متبادل ڈڈیال شہر میں والد ضاحب کوپلاٹ ملا۔ زمین کے معاوضے اور اُن کی برطانیہ سے لائی رقم لگا کر والد نے ایک کنال پر بڑا گھر تعمیر کروایا۔برطانیہ سے وطن آنے سے پہلے وہ اپنے چھوٹے بھائی کے برطانیہ جانے کا بندوبست کر کے آئے تھے، اس لیے برطانیہ واپسی پر وہ اِنھیں اپنے ساتھ لیتے آئے۔
برطانیہ میں دونوں بھائیوں نے بڑی محنت کی۔سب سے چھوٹا بھائی پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ والد صاحب کی خواہش کے مطابق اس نے وکلالت پڑھی اور وکیل بن گیا۔ وہ دونوں بھائی برطانیہ سے والد اور بھائی کو رقوم بھیجتے رہتے تھے۔ 1975 ء میں انھوں نے سمال ہیتھ میں مین سڑک پراپنا گروسری کا کام شروع کیا۔ اللہ نے کاروبار میں برکت ڈالی اور ان کی محنت اور فہم و فراست کی وجہ سے کام چل نکلا۔کاروبار والی جگہ اُنھوں نے خرید کر وہاں ایک بہت بڑا سپر سٹور بنایاہے جو اب ان کے بیٹے مل کر چلاتے ہیں۔
ہم باتوں میں مگن تھے کہ وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میرا نواسہ میرے پاس آیا اور کہا کہ نانو چائے لانے کا کہہ رہی ہیں۔ میں اٹھنے لگا تو بزرگوار کا پوتا فوراً اٹھا اور مجھے کہا۔انکل ! آپ بیٹھیں میں چائے لے کر آتا ہوں۔ میں نے پیسے دینے چاہے لیکن اس نے انکار کر دیا اور میرے نواسے کو ساتھ لے کر چائے لینے چلا گیا۔میں بڑی دلچسپی سے ان بزرگوارکی باتیں سن رہا تھا جنھوں نے اپنا نام عدالت خان بتایا تھا۔ وہ پھر گویا ہوئے۔
“ہم دونوں بھائی برطانیہ سے والد محترم اور چھوٹے بھائی کے نام اکثر رقوم بھیجتے رہتے تھے۔ والد محترم نے ان رقوم سے بہت ساری زمینیں خریدیں اور شہر میں دو تین پلاٹ بھی لیے۔1995 ء میں والد اور والدہ کومیں اپنے ساتھ برطانیہ لے گیا، جہاں 97 ء میں پہلے والد صاحب کی رحلت ہوئی اور اس کے دو سال بعد والدہ بھی چل بسیں۔والدین کی تدفین کے لیے میں دو دفعہ پاکستان آیا۔ پاکستان سے چھوٹے بھائی اپنے بیٹے اور بیٹی کے لیے میری ڈاکٹر بیٹی اور بیٹے کا رشتہ کرنا چاہتے تھے۔ بیٹا تو رشتہ کے لیے نہیں مانا لیکن بیٹی کو میں نے کسی طرح اِس رشتہ کے لیے منا لیا۔شادی ہو گئی لیکن داماد کی کچھ احمقانا حرکتوں کی وجہ سے دو سال بھی نہ چل سکی اور اُن میں علیحدگی ہو گئی۔ بیٹی کو اِس شرط پر طلاق ملی کہ وہ لڑکے کو برطانیہ میں سیٹل کرائے گی، جو اس نے کرا دیا۔
اس کے کچھ عرصہ بعد میں پاکستان گیا اور بھائی کے پاس ٹھہرا۔دوسرے دن ہی بھائی نے کہا کہ آپ اپنے لیے علیحدہ مکان بنائیں اور اس میں آ کر رہا کریں۔ یہ میرا گھر ہے اور اس میں میرے بچے رہتے ہیں جن کو آپ کا یہاں رہنا پسند نہیں ہے۔اس بات پر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ تو ہمارا آبائی گھر ہے جو سب نے مل کر بنایا تھا اور والد صاحب کے نام تھا۔اس پر بھائی نے بتایا کہ یہ گھر ابا جی نے اس کے نام کر دیا تھا۔ اِس مکان سے آپ کااب کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے یہ سن کر بڑی مایوسی ہوئی لیکن میں خاموشی سے واپس آ گیا۔2008 ء میں منگلا ڈیم کی اپ ریزنگ ہونے پرمیں پھر پاکستان گیا اور اپنی زمینوں کے معاوضے کا پتہ کیا۔ پتہ چلا کہ ہماری بھیجی ہوئی رقوم سے خریدی گئی ساری زمین اور پلاٹ چھوٹے بھائی نے والد صاحب سے ان کی زندگی میں اپنے نام ہبہ کروا لیے تھے۔مجھے یا برطانیہ میں آباددوسرے بھائی کو والد محترم نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔چھوٹے بھائی نے زمین کا معاوضہ بھی وصول کر لیا ہوا تھا۔ میں نے بھائی سے اس بارے میں بات کی تو اس نے کہ جواب دیا کہ آپ تو دونوں بھائی برطانیہ چلے گئے تھے۔میں نے یہاں والدین کو اپنے ساتھ رکھا اس لیے اب یہ سب کچھ میرا ہے۔ آپ کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔وہ دلگیر لہجے میں بولے کہ بھائی کی یہ بات سن کر وہ چپ چاپ کان لپیٹ کر برطانیہ واپس چلے آئے۔اب وہ برطانیہ میں ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں۔ کاروبار بچوں نے سنبھالا ہوا ہے۔
یہ بات کر کے وہ آب دیدہ ہو گئے اور کافی دیر چپ رہے۔ میں نے انھیں دلاسا دیا۔ کچھ دیر بعد وہ بولے۔” آپ سے باتیں کر کے میرا دل کا بوجھ کچھ کم ہو گیا ہے۔ ” پچھلے دو تین سال سے میرا بہت دل چاہتا تھا کہ اپنے دیس جاؤں،اپنے گاؤں کی سیر کروں،وہ گلیاں دیکھوں جہاں میرا بچپن گزرا،لیکن بچے اکیلے نہیں آنے دیتے تھے۔ اس دفعہ بیٹے نے بڑے پوتے کو ساتھ بھیجا ہے۔ میرپور کے جبیر ہوٹل میں بچوں نے رہنے کا بندوبست کردیا تھا۔ گاڑی بھی رینٹ پر لے دی تھی۔ ہم دادا پوتا ایک ماہ و ہاں رہے ہیں اور آج واپس جا رہے ہیں۔ اپنا پرانا گاؤں تو منگلا ڈیم کے پانی میں غرق ہو گیا ہوا ہے جس کی باقیات بھی اب باقی نہیں رہیں۔ڈیم میں پانی کم ہونے کے باعث بس ایک اندازے کے مطابق گاؤں کی جگہ گیا۔ ڈڈیال میں والدین کی قبروں پر حاضری دی۔ڈڈیال شہر میں کچھ دن گزارے،کچھ رشتہ داروں سے ملا۔چھوٹے بھائی کے گھر مہمانوں کی طرح گیا اور چائے پی کر واپس آ گیا۔ برطانیہ کی طرح پاکستان میں بھی اخلاقی قدروں میں بہت حد تک کمی آئی ہے۔ لوگوں کے رویے بدل گئے ہیں۔ مادیت پرستی بڑھ گئی ہے۔
دو دن پہلیمیں ڈڈیال گیا تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کراندرہل کے بہت سے گاؤں میں گھوما۔ ڈڈیال کی مرکزی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی۔ اپنے جاننے والا تو کوئی اب رہا ہی نہیں۔ڈڈیال ریسٹ ہاوس کے صحن میں کھڑے کر منگلا ڈیم کا نظارہ کیا۔ آنکھوں کے سمندر میں بہت کچھ سمیٹ کر وطن کی ٹھنڈی اورتازہ ہوا میں چند گہری سانسیں لیں اور واپس لوٹ آیا ہوں۔ اسلام آباد ائیرپور ٹ پہنچ کر مجھے لگ رہا تھا شاید میرا اپنے دیس کا یہ آخری وزٹ ہے اور اس کے بعد میں اپنے وطن کو کبھی نہیں دیکھ سکوں گا۔منگلا ڈیم بننے اور دوبارہ اسے اونچا کرنے سے جہاں آدھا ملک روشن ہوا،ہزاروں دیہات کو پانی میسر آیا ہے وہیں میرے جیسے نہ جانے کتنے خاندانوں کا اپنے ملک سے رشتہ ختم ہو گیا ہے۔ ہمارے مکان، ہماری زمینیں ہمارے قبرستان منگلا ڈیم کے پانیوں میں ڈوب گئے ہیں جو کبھی ہماری وطن واپسی کا ایک مضبوط رشتہ تھا۔ اب یہ رشتہ انتہائی کمزور ہو گیا ہے۔ اسلام آباد ائیرپورٹ پر ان ہی باتوں کا احساس کر کے میری آنکھیں بھر آئی تھیں۔
